طبعی مقداروں کی پیمائش
کئی
سالو ں پہلے مصر کے بازاروں میں اگر
کوئی چیز
بیچنی ہوتی تو اس وقت انسان مختلف اشیا ءفروخت کرتے وقت مختلف پیمانے استعمال کیا کرتے تھے۔ مشلاً کپڑا
بیچتے وقت انسان کی کہنی سے درمیانی انگلی کے سرے تک لمبائی ناپتا تھا اور اور فروخت کرتا تھا۔ اسی ناپ کو" کیوبٹ
"کہتے تھے۔ پھر لوگو ں کو یہ بات سمجھ آئی کہ اس طرح کے پیمانے سے کپڑا فروخت کرنے میں دشواری آنے لگی۔ کسی کے ہاتھ لمبے ہوتے تو
کسی کے ہاتھ چھوٹے ۔ اس طرح پیمانے میں اختلاف پایا جانے لگا۔پھر وہاں
کے بادشاہ کے پاس یہ بات پہنچی ۔ بڑے ہی
راے مشورے کے بعد یہ بات طہ پائ کہ بادشاہ
کے ہاتھ کے ناپ کے مطابق پیمائش کی جائیگی۔پھر پورے ملک میں بادشاہ کے ہاتھ کا ناپ ہی میعاری پیمائش مقرّر
کیا گیا۔
اسی طرح ہمارے ملک بھارت میں بھی سونے کی پیمائش کے لئے "گنج" اس اکائ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ بطور گھڑی
ریت کے شیشی ( ریت کی گھڑی ) کا استعمال کیا جاتا تھا۔
فرض کیجیئے
آج کے وقت میں میں اگر اِ سی طرح کی
پیمایش کا استعمال کرینگے ۔ کیا یہ مناسب ہوگا ؟۔۔۔۔۔۔
یہ ناممکن بات ہے۔
کیونکہ کہ آج کے وقت میں
ہمیں روزمرہ کی چیزوں کی خرید فروخت میں
میعاری پیمائش دستیاب ہے۔
تو آئے آج ہم طبعی مقدار
کی پیمائش کے مختلف اکایئوں کی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔
روز مرہ زندگی میں مختلف
چیزوں اور اشیاء کی جاتی ہے۔ جیسے
٭ پھل ، ترکاری ،
اناج ، ان کی کمیت
٭ جسم یا مائع کا درجہ
حرارت
٭ ٹھوس ، مائع ، گیس
کا حجم
٭ مختلف چیزوں کی
کثافت
٭ گاڑیوں کی رفتار
کمیت ، وزن
، فاصلہ ، رفتار ، درجہ حرارت ،اور حجم
وغیرہ کو طبعی مقدار کہتے ہیں ۔
؏کمیت
شےء
میں موجود مادے کی مقدار کو کمیت کہتے ہیں
۔ اشیاء قدرتی طور پر اپنی موجودہ حالت کی تبدیلی کے خلاف ورزی
کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے اشیاِ ء میں جمود ہوتا ہے۔کمیت شے کے جمود
کی قدر کی پیمائش ہے۔
کمیت جتنی زیادہ ہوتی جمود بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔ کمیت
ایک غیر سمتی مقدار ہے۔
غیر سمتی مقدار:-
کسی مقدار کو اگر صرف اس کی قدر کے زریعہ پوری طرح ظاہر کیا جا سکتا
ہےم تو اسے غیر سمتی مقدار کہتے ہیں ۔ مثلاً لمبائ – چوڑائ ، رقبہ ، کمیت، درجہ
حرارت ، کثافت ، وقت ،کام
وغیرہ، کی قدر ظاہر کرنے کے لئے صرف معیاری یعنی قدر کا اور اکائ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً، راستے کی لمبائی دو کلو مٹر ہے۔ ، بخار 101 ہے۔
؏ وزن
جن اشیاء کی پیمایش ہم
گرام ، کلو گرام میں کرتے ہیں وہ ان کا
وزن نہیں بلکہ انکی کمیت ہوتی ہے۔اس کمیت
پر جتنی ثقلی قوت عمل کرتی ہے وہ
وزن کہلاتا ہے۔ کسی شے کو زمین جس
ثقلی قوّت سے
اپنے مرکز کی جانب کشش کرتی ہےاسے
اس شے کا وزان کہتے ہیں ۔اس لیے وزن ایک سمتی مقدار ہے۔ وہ زمین کے مختلف مقامات
پر مختلف ہوتاہے۔
ایک سمتی مقدار :-
اگر کسی مقدار
کو ظآہر کرنے کے لیے قدر اور سمت دونو ں کا استعمال کیا جاے تو اسے سمتی مقدار
کہتے ہیں ۔
ہٹاؤ یا رفتار یہ
سمتی مقدار یں ہیں مثلاً
ممبئ کی سمت 500 کلو مٹر فی گھنٹہ
کی رفتار سے جانے والا ہوائ جہاج ۔
اگر
آپ ایک بات پر غور کریں سمجھ میں آئگا کہ
انسا کہیں بھی چلا جائے اسکی کمیت میں فرق نہیں آیئگا۔ اسکی برخلاف اگر ہم چاند پر جاتےہیں تو کمیت اتنی ہی رہیگی فرق آئیگا
وہ وزن میں کیونکہ چاند پر زمین کی بہ نسبت ثقلی
قوت کم رہنے کی وجہ سے اگر زمین پر 60 کلو کی
شے چاندپر صرف 10 کلو رہ
جائیگی۔
ایک سوال :- کمیت ، وزن ، فاسلہ ، چال ، درجہ حرارت ، وغیرہ طبعی
مقداروں کی پیمایش کرنے کے لئے کیا
ایک ہی اکائ استعمال ہوگی؟
نہیں ۔
کیونکہ ہم ان
طبعی مقداروں کی پیمایش کرتے وقت اس کے مطابق الگ الگ اکائیاں استعمال کرتے ہیں ۔
ایک مثال کے زریعے ہم سمجھتے ہیں ۔
کلاس کے تمام بچوّں سے کہینگے کہ ستلی (دھاگہ) کا ایک بنڈل لیں اور سب بچے
چار چار ہاتھ ستلی کاٹ لیں ۔ پھر آخر میں
تمام بچوّں کے پاس کٹی ہوئ ستلی کے ٹکڑوں کو
ناپینگیں تو پتہ چلیگا کہ تمام
بچوں کے پاس الگ الگ ناپ کے ستلی کے ٹکڑے ہونگے ۔
وہی اگر ہم ان
سے یہ کہں کہ
کوئ بھی ایک
بینچ کی لمبائ اپنے بالشت سے
ناپئے اور اسی حساب سے ستلی کو کاٹ کر تقسیم کر لینے پر تمام بچوں کو یکساں
پیمایش کے ٹکڑے فراہم ہونگے ۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے ہے کہ
پیمایش کرنے کے لئے معیاری پیمانے
کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پیمایش کو معیاری
اکائی کہتے ہیں۔
سائنس
کے مطالعیہ کے دوران مختلف مقداروں کی پیمایش کرنا پڑتی ہے۔ کسی بھی مقدار کی پیمایش
ہم اس مقدار کے لئے متعین کردہ اکائ میں ہی کی جاتی ہے۔ مثلاً لمبائ کی
پیمایش کے لیے میٹر ، اکائ مقرر کی گئی۔ اسکے لئے مخصوص فاصلہ یعنی
0ء1 میٹر مانا گیا ہے۔
٭ اکایئوں کا
بینالاقوامی طریقہ ۔
سات
بنیادی مقداروں پر مشتمل اکایئوں کا ایک
بین لاقوامی نظام آج ساری دنیاں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس نظام کو میٹرک نظام بھی کہتے ہیں ۔
اکائ کی علامت
|
اکائ کا نام
|
مقدار
|
m
|
میٹر
|
لمبائ
|
kg
|
کلو گرام
|
وزن
|
s
|
سیکنڈ
|
وقت
|
کمیت
ناپنے کے لئے پیمانے کے طور پر پلاٹینیم – اِریڈیم کا ایک ٹھوس استوانہ پیرس کے بین الا قوامی
پیمایش محکمہ میں رکھا ہوا ہے ۔ بین الا قوامی اقرار نامہ کے تحت اس کی کمیت کو
ایک کلو گرام کہتے ہیں ۔ اسکی ہوبہو نقل دنیا ں کے مختلف تجربہ گاہوں میں رکھی گئی ہے۔ پیرس کے
بین الاقوامی محکمہ میں رکھی گئی پلاٹینیم
– اِ ریڈیم کے آمیزے سے تیار کی گئی پٹی پر دو
باریک لکیریں کھینچی گئی ہیں ان دو لکیروں کا درمیانی فاصلہ
ایک مٹر مانا گیا ہے ۔ اسکی ہوبہو نقل دنیا ں کے مختلف تجربہ گاہوں میں رکھی گئی ہے۔
زمین
کے ایک مداری گردش مکمل کرنے لئے جو وقت درکار ہوتا ہے ۔ اسکی بالکل صحیح پیمایش
کرکے اسے 24 گھنٹے مان کر ایک دن قرار دیا گیا ۔ ایک گھنٹے کے 60 منٹ اور ایک منٹ
کے 60 سیکنڈ قرار دیئے گئے ہیں۔
ذرایع :- جماعت ہفتم ،سبق نمبر 6،نصاب بذریعہ ریاست حکومت مہاشٹر