
best gazals by mirza asd ullah khan galib

best gazals by mirza asd ullah khan galib
مرزا اسد اللہ خان غالب کی بہترین غزلیں
مرزا غالب کی بہترین مکمل غزل پیش خدمت ہے:
غزل
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم میں ہو، پر یہ سنیں تو کیا کرے
کس سے کہیں کہ ہم نے بھی، کچھ آرزو بسا رکھی
عمر بھر کا خیال لے کر، آئے وہ بزم میں نہ کیوں
اک یہی خواب دیکھتے ہیں، تیری گلیاں بسا سکیں
ہوں غم و درد سے نجات، جب ہو بہارِ خوشگوار
حیف ہے وقت کا فریب، لمحہ کوئی نہ ٹک سکے
محفلِ آرزو کی جھلک، غالب اسی پہ سرخرو
دل میں وہی حیات باقی، عشق جو دے کبھی سکوں
یہ غزل مرزا غالب کی تخلیقی گہرائیوں اور شاعرانہ حسن کا بہترین نمونہ ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور دلکش اور مشہور غزل پیشِ خدمت ہے:
غزل
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
یہ غزل غالب کے فکری انداز، زندگی کی بے یقینی اور ان کے منفرد شاعرانہ اسلوب کی عمدہ مثال ہے۔
مرزا غالب کی مشہور غزل "آہ کو چاہیے" پیشِ خدمت ہے:
غزل
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پرتوِ خضر میں ہے شمع جہاں سوز کا داغ
جل بجھیں گے ہم، تمہیں دیکھتے رہنے کے لیے
یہ غزل مرزا غالب کی محبوب سے وابستہ امیدوں، صبر اور شدید جذبات کا بہترین عکاس ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور مکمل غزل پیش ہے:
غزل
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے قراری ہے
کہ گلچیں سے کوئی پوچھے کہ ہم سب سے کیوں نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کے چارہ سازی کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یہ غزل غالب کے فلسفۂ زندگی اور گہرے جذبات کا آئینہ ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور مکمل غزل پیش ہے:
غزل
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
یہ غزل مرزا غالب کے گہرے جذبات، محبوب سے فراق اور دل کی کیفیت کا بہترین اظہار ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور مشہور مکمل غزل پیش ہے:
غزل
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ غزل غالب کے عشق کے فلسفے اور گہرے جذباتی اظہار کی ایک شاندار مثال ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور مکمل غزل پیشِ خدمت ہے:
غزل
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گئے پر نہ ہوئی حسرت تمام
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
عشق غالب کہ ہے اک آتشِ زیرِ پا
لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
یہ غزل مرزا غالب کی کرب ناک زندگی اور صبر و تحمل کا عکاس ہے۔
مرزا غالب کی ایک اور لازوال غزل پیشِ خدمت ہے:
غزل
نکتہ چیں ہے غمِ دل، اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہ غزل غالب کی شاعرانہ عظمت اور دل کی گہرائیوں کے اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔